سید فخرالدین بَلّے علیگ کی سوانح حیات ۔۔۔ علامہ سید غلام شبیربخاری علیگ

سید فخرالدین بَلے علیگ کی سوانح حیات
…………………………..
تحریر و تحقیق: علامہ سید غلام شبیربخاری علیگ

میں ایک ایسی شخصیت کا سوانحی خاکہ ترتیب دے رہاہوں ،جس کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد پر محبت کاتعلق قائم ہوا ۔یہ رفاقت نصف صدی کاقصہ ہے،دوچار برس کی بات نہیں۔وہ ایک شاعر،ادیب،صوفی،دانشور،تخلیق کار،مقرر،صحافی، مولف،ماہر ِ تعلقات ِ عامہ ،محقق اور اسکالر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے اور دنیائے علم و ادب میں یہی حوالے آ ج بھی ان کی پہچان ہیں۔ساری زندگی خود چین سے بیٹھے نہ دوسروں کو چین سے بیٹھنے دیا ۔بزم آرائی ان کا مشغلہ بھی رہا اور شوق بھی ۔قافلے کےپڑاوکے شرکاءبھی یقیناً میری تائید کریں گے۔اور وہ تمام ارباب ِ ادب بھی جو اُن کی ادبی اور ثقافتی ہنگامہ خیزیوں میں شریک رہے ہیں۔وہ اپنی ذات میں کائنات اورایک اچھے انسان توتھے ہی،ایک مکمل داستان بھی ہیں ۔انہوں نے بڑی بھرپور زندگی گزاری ۔اب ہم میں نہیں لیکن آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ مولوی عبدالحق ،فراق گورکھپوری،ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد،آل ِ احمد سرور،جوش ملیح آبادی،ڈاکٹر وزیرآغا،ڈاکٹر خواجہ زکریا،اشفاق احمد،این میری شمل،پیر حسام الدین راشدی،فیض احمد فیض،انتظار حسین،ڈاکٹرسید حامد سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ،خواجہ نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف،علامہ سید نصیرالاجتہادی،میرزاادیب،پریشان خٹک،علامہ سیداحمدسعید کاظمی ،ڈاکٹر اسلم انصاری،رئیس امروہوی،ڈاکٹر عنوان چشتی،احمد ندیم قاسمی،اورجون ایلیاسمیت کس کس کانام لوں؟ اور کس کس کو چھوڑ دوں ؟نامور ارباب ِ ادب اس شخصیت کا کام اور کلام دیکھ کر اپنے اپنے انداز میں بَلّے بَلّے کہتے دکھائی دئیے۔اور ان کی سوچ،شخصیت،خدمات اور فن کے مخفی گوشے اجاگر کئے۔کل کو اگر اس حوالے سے کوئی تحقیقی کام ہوتا ہے تو ارباب ِ علم و دانش کے یہی ستائشی کلمات اس کی بنیاد بنیں گے۔

نام و نسب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام: سیدفخرالدین بلے 
مکمل نام: سیدفخرالدین محمد بَلّے
قلمی نام: سیدفخرالدین بَلّے
تخلّص اور عرفیت: بَلّے
ازل سے عالمِ موجود تک سفر کر کے
تھکے تو جسم کے حجرے میں اعتکاف کیا
سیدفخرالدین بَلّے بوقتِ صبح ِ صادق عالم ِ وجود میں آئے۔
تاریخ ِ ولادت :15دسمبر 1930ء
یہ تاریخ ِ ولادت سرکاری دستاویزات کے مطابق ہے۔
اصل تاریخ ولادت 6 اپریل 1930 ہے۔
دن : اتوار . مقام ِ ولادت: ہاپوڑ (میرٹھ ) متحدہ ہندوستان
عمر :73سال،9ماہ،22دن   (یہ مدت عیسوی ماہ و سال کے اعتبار سے ہے۔)
ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے عمر76سال ،ایک ماہ بنتی ہے۔

بَلّے کی وجہ ِ تسمیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلطان الہند ،غریب نواز حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ نے اپنے صاحبزادے کا نام فخر الدین رکھا تھا اور انہیں پیار سے ”بَلّے“ کہتے تھے۔ اسی مناسبت سے آپ کے والد بزرگوارسید غلام ِ معین الدین چشتی نے اپنے بیٹے کا نام فخر الدین رکھا اور انہیں پیار سے ہمیشہ ”بَلّے“ کہہ کر پکارا۔ یوں سیّد فخر الدین  ”بَلّے“ مشہور ہو گئے۔

والد ِ بزرگوار کانام : سید غلام ِمعین الدین چشتی
والدہ ماجدہ کا نام: امۃ اللطیف بیگم
دادا حضور:سید غلامِ محی الدین چشتی
دین: اسلام
مسلک : چشتیہ سلسلہء عالیہ
شہریت: پاکستانی
پہچان: اسلامی جمہوریہ پاکستان

خاندانی پس منظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواجہ ء خواجگان حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری ؒ سے ہوتا ہوا آپ کا سلسلہ نسب 43 واسطوں سے مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔

اجداد کی سیاسی خدمات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید فخرالدین بلے کے اسلاف نے قربانیوں کی کئی داستانیں رقم کیں ۔کوئی دور ایسا نظرنہیں آتا کہ وہ غیر متحرک رہے ہوں۔سماجی سطح پر بھی اہم خدمات انجام دیں۔ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواکئے بغیر رفاہی کام کئے اور محروم طبقات کے دکھوں کامداواکرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ آپ کے والد بزرگوار سید غلامِ معین الدین چشتی 1942کے انتخابات میں شہید ِملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی انتخابی مہم کے نگران تھے۔ جد ِ امجدسید غلام ِمحی الدین چشتی نے 1906 میں ڈھاکہ میں ہونے والے مسلم اکابر کے تاریخ ساز اجتماع میں صوبہ آگرہ کے مندوب کی حیثیت سے شرکت کی۔ اسی اجتماع میں مسلم لیگ کے قیام کا اعلان کیاگیا۔ آپ کے پردادا میرقادرعلی نے بھی مسلم کاز کے لئے اہم خدمات انجام دیں۔ وہ سرسید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ڈیفنس کمیٹی کے ممبر تھے۔ جو 1893میں بنی تھی۔ میر قادرعلی کے والدمحترم میر نظام علی نے 1857 کی جنگ آزادی میں میرٹھ کے محاذ پر جامِ شہادت نوش کیا۔

بچپن میں بزرگوں کی صحبتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو بچپن میں ابوالکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین،مولاناحسرت موہانی،مولوی عبدالحق،رشید احمد صدیقی،جگر مراد آبادی،تلوک چند محروم،علامہ نیاز فتح پوری،سیماب اکبرآبادی،سر شاہ نواز بھٹو،اور مولانا عبدالسلام نیازی سمیت نامور قد آور شخصیات کی صحبتوں میں بیٹھنے اور ان سے فیض پانے کے مواقع ملے۔

تحریک پاکستان کا ایک چائلڈ اسپیکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1944-47 تحریک ِ پاکستان کے دوران انہوں نے سیاسی اجتماعات میں چائلڈ اسپیکر کی حیثیت سے حصہ لیا۔ جن میں  قائد اعظم محمد علی جناح ، خان لیاقت علی خان، نواب اسماعیل خان، چوہدری خلیق الزماں، سردار عبدالرب نشتر‘ آئی آئی چندریگر اور حسین شہید سہروردی نے خطاب کیا۔

تحصیل ِ علم اور تعلیمی ادارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میٹرک:الہ آباد تعلیمی بورڈ الہ آباد
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ
ایف ۔ایس ۔ سی
بی ۔ ایس ۔ سی
اور ایم ایس سی (جیالوجی)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ علی گڑھ سے کیا

ادیب ِ کامل
ادیب ِ فاضل
جامعہ الاردو‘ علی گڑھ سے کیا
شعری سفر کاآغاز1944 میں ہوا۔

پہلا شعر

پوچھتا ہے جب بھی کوئی مجھ سے خاموشی کی بات
آسماں کو دیکھ کر خاموش ہو جاتا ہوں میں



علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہم نصابی سرگرمیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدفخرالدین بَلّے نے ہم نصابی سرگرمیوں میں گرم جوشی سے بھر پور حصہ لیا۔بیت بازی کے مقابلوں ،مباحثوں ،مشاعروں اورتقریری مقابلوں میں جوہر دکھائے۔سینئر اساتذہ سے بھی خوب داد سمیٹی ۔مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے۔یونیورسٹی کے مجلے دی یونین کے مدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اپنا مجلہ ماہنامہ جھلک ،علی گڑھ جاری کیا۔حلقہ یاراں بڑا وسیع رہا۔اساتذہ اور تلامذہ میں یکساں مقبول رہے۔
شادی/ نکاح :۔ سید فخرالدین بلے کی شادی مورخہ 15مٸی 1950. حکیم عقیل الرحمن کی دختر نیک اختر محترمہ مہر افروز سے عالی شان انداز میں انجام پاٸی۔

سید فخرالدین بلے اور مہر افروز بلے کی اولاد
چار بیٹے اور چار بیٹیاں

1.محترمہ عذرا کمال
2.سید انجم معین بلے
3.سیدہ اسماء رضوان
4.سید عارف معین بلے
5.آنِس معین
6.سیدہ ناز اظہر
7.سیدہ آمنہ آصف چشتی
8.ظفر معین بلے جعفری

ترک ِ سکونت کافیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنی خوبصورت یادوں کو سمیٹ کر بھارت کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہنے کے لئے پرتول لئے۔
ہجرت: لاہور میں پہلا پڑاٶ ڈالا۔
کراچی میں کچھ عرصہ قیام کیااور روزگار کے امکانات کاجائزہ لینے کے بعد بالآخر ستلج کنارے پڑاو ڈالنے کافیصلہ کرلیا۔
ڈومیسائل: بہاول پور (بہاولپور ہی سے سرکاری کیرئیر کا آغازکیا)
سراپا: علمی اعتبار سے قدآور لیکن ظاہری اعتبار سے میانہ قامت۔
سر بڑا تھا۔ جیسے کسی سردار کا ہوتا ہے۔
گھنگھریالے بال۔ درمیان میں مانگ ۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب آتش جوان تھا۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ انہوں نے مانگ نکالنا بند کردی تھی ،البتہ کنگھا کرتے تو تھوڑی دیر بعد خود بخود مانگ نکل آتی تھی۔
بڑی بڑی دلکش آنکھیں ۔
آنکھوں میں سرخ ڈورے۔جن سے سفیدی اور سیاہی مزید نمایاں ہوگئی تھی۔
کشادہ پیشانی ۔پیشانی پر سوچوں کی تین چار محرابیں ۔
وہ گہری سوچ میں ہوتے تو یہ محرابیں اور گہری ہوجاتیں۔
خوبصورت نقش و نگار کے مالک تھے ۔
کلین شیوڈ۔بڑھے ہوئے شیو کے ساتھ کسی محفل میں کبھی نظر نہیں آئے۔
سینے پر بال اور بالوں کی ایک لکیر ناف تک موجودتھی۔
نسبتاً لانبی کلائیاں ۔گداز ہتھیلیاں ۔
ہاتھ ملاتے تو لگتا کہ ان ہاتھوں نے کبھی مشقت نہیں کی۔حالانکہ ساری زندگی مشق ِ سخن جاری رکھی۔

شخصیت
۔۔۔۔۔۔۔

باوقار اور باغ و بہار شخصیت کا نام سید فخرالدین محمد بلے ہے۔خوش لباسی ان کی خوش مزاجی کاآئینہ تھی۔طبیعت میں نفاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی محسوس ہوتی ۔جو ملے اسے اپنا گرویدہ بنالیتے ۔گفتگو میں طنز نہیں ،البتہ مزاح ضرور جھلکتاتھا۔دوسروں کو آگے بڑھتادیکھ کر جی اٹھتے ۔دل میں کسی کے لئے میل نہیں۔اعلیٰ ظرف ،دریا دل اور کشادہ نظر تھے۔تواضع ان کا خاصا اور مروت و رواداری ان کا شعار رہی۔

لباس
۔۔۔۔۔۔

خوش لباسی بھی عالم ِ نوجوانی میں ان کی مقبولیت کاسبب بنی۔
تھری پیس سوٹ،اور شوخ رنگ کی ٹائی۔ اس پر میچنگ شوز۔کبھی کبھار جواہر کٹ واسکٹ ،کرتہ شلوار ۔
شیروانی کے کالر والی بوشرٹ اور پینٹ۔
شیروانی ۔کرتہ شلوار کے ساتھ کھسہ،میچنگ پینٹ شرٹ کے ساتھ میچنگ شوز۔
زندگی کے آخری دور میں صرف سفید قمیض شلوار اور سفید شوزکو ترجیح دی۔
سرد موسم میں کالی،سفید یا سلیٹی رنگ کی چادر اوڑھنا پسند کرتے تھے۔ساتویں محرم الحرام کو سبزکرتا اور سفید شلوار اور دسویں محرم الحرام کو کالا کرتا اور سفید شلوار اُن کا پہناوا ہوتا۔یہ روایت عمر بھر برقرار رہی ۔
چلن: فقیرانہ
انداز : شاہانہ
فکر:صوفیانہ
شیوہ:انسانیت سے محبت اور احترام ِ ِآدمیت

فطرت
۔۔۔۔۔۔۔۔

مسکرانا۔برائی کابدلہ بھلائی سے دینا۔پریشاں حال لوگوں کی دلجوئی کرنا،بائیں ہاتھ کو خبردئیے بغیر دائیں ہاتھ سے ضرورت مندوں کی مدد کرنا۔مثبت پہلووں پر ہمیشہ نظر رکھا۔

شوق
۔۔۔۔

کتب بینی ،بزم آرائی اورشب بیداری

شعبے
۔۔۔۔

علم و ادب،فنون ،ثقافت،تصوف،آثار ِقدیمہ،مذاہب ِ عالم،تحقیق،سیاحت،معدنی وسائل،صحافت،تعلقات عامہ

محکمے
۔۔۔۔

اطلاعات،تعلقات عامہ،سیاحت،پروٹوکول،آرٹس کونسل،سوشل ویلفئیر،بلدیات،وزارت مذہبی امور،وزارت ِ اقلیتی امور،اور وزارت سمندرپار پاکستانیز

غیر ملکی سرکاری دورے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران، چین ،سری لنکا،افغانستان ،بنگلہ دیش اور بھارت۔
بھارت کادورہ ذوالفقار علی بھٹو وزیرخارجہ پاکستان کے ساتھ کیا۔واپسی پر بھٹو صاحب نے ان کی کارکردگی کوبے مثال قراردیااورجوریمارکس دئیے،وہ بلاشبہ ایسے ہیں ،جن پرفخرہی کیاجاسکتاہے۔اس کی تفصیل میری یادداشتوں میں محفوظ ہے۔

کھیل اور مشاغل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختلف ادوار میں مختلف میدانوں میں نظر آئے۔کرکٹ، بیڈمنٹن، رِنگ، ٹیبل ٹینس ، اسکریبل ، کیرم، لڈو ، شطرنج، اور بریج ۔

تالیفات و مطبوعات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن شعبوں، اداروں اور محکموں سے وابستہ رہے ۔ان سے متعلق (150) سے زیادہ مطبوعات تالیف و تدوین کیں اور ان کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ان میں کتابیں، کتابچے ،سووینئیرز،اوربروشرز شامل ہیں۔ یہ تالیفات انگریزی، اردو، ہندی اور فارسی زبانوں میں مرتب کی گئیں۔ان میں سید فخرالدین بلے کی علمی وسعت،فکر کی رفعت ،پاکستانیت،پاکستانیات سے متعلق علمیت، زبان و بیان پر قدرت اور وطن ِعزیز سے محبت نظرآتی ہے۔

دو تحقیقی کتابیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم
آپ نے باب العلم حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ و تعالیٰ وجہہ ا لکریم کی سیرت و شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب ولایت پناہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم لکھی۔
فنون ِ لطیفہ اور اسلام
مندرجہ بالا عنوان کے تحت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کی تحقیقی کتاب بڑا علمی سرمایہ ہے ،جو دل کشا بھی ہے اور چشم کشا بھی۔
سات صدیوں بعد، دو تخلیقی کارنامے
امیر خسروؒ کے بعد سیّد فخر الدین بَلّے نے قول ترانہ اور “نیا رنگ” تخلیق کیا۔ جس کی دُھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے تیار کیں۔ ان دونوں تخلیقات کو جید علما،صوفیااور مشائخ نے7 صدیوں بعد اہم تاریخی اور تاریخ ساز کارنامہ قرار دیا ہے۔
محسنِ فن ….”مین آف دی سٹیج”۔ اسٹیج کیلئے خدمات پر دو خطابات سے نوازا گیا
فنون و ثقافت کے فروغ اور 1982ءمیں ملتان میں 25 روزہ جشنِ تمثیل کرانے پر ثقافتی تنظمورں اور اسٹیج فنکاروں کی طرف سے آپ کو ”محسنِ فن“ کا خطاب دینے کے ساتھ ساتھ مین آف دی اسٹیج قرار دیا گیا۔

سکونت
۔۔۔۔۔

سرکاری ملازمت نے خانہ بدوش بناکر رکھ دیا۔کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، سرگودھا، ملتان،کوئٹہ ، قلات، خضدار اور بہاولپور میں دورانِ ملازمت قیام رہا۔ ان شہروں میں آپ کا وسیع حلقہء یاراں موجود ہے۔

ریٹائرمنٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ ،حکومت پنجاب ۔گریڈ 20  ۔۔۔15.دسمبر۔1990

روزگار بعد از ریٹائرمنٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فری لانس (جرنلسٹ )‘ میڈیا کنسلٹنٹ۔ پبلک ریلیشنز پریکٹیشنر

جادہ ءصحافت پر انمٹ نقوش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدفخرالدین بلے نے دنیائے صحافت میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔اخبارات و جرائد میں کالم بھی لکھے۔ سیاسی اور سماجی مسائل و معاملات پر ان کے قطعات بھی توجہ کامرکزبنے۔پاکستان کے صدور،وزرائے اعظم،صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کےلئے جتنی تقریریں لکھیں ،انہیں شمارمیں نہیں لایاجاسکتا۔دوست احباب ان کے پاس آ کر مضامین لکھوایاکرتے تھے اور پھرانہیں اپنے نام سے چھپواکر خوش ہوتے تھے۔ایسا کبھی کبھارنہیں اکثر ہوتاتھا۔ان کی عنایات کی بنیاد پر بہت سے لوگ صاحب ِ کتاب بنے۔
سید فخرالدین بلّے نے صحافتی دنیامیں کچھ جرائد کے بانی مدیرِاعلیٰ یا مدیر کی حیثیت سے قابل ِ قدرکام کیا۔سرکاری جرائد پر بھی ان کی شخصیت کے دستخط ثبت نظرآتے ہیں۔جو جرائد آپ کے زیرادارت شائع ہوئے،ان کی تفصیل یہ ہے۔
ایڈیٹر پندرہ روزہ دی یونین علی گڑھ
بانی ایڈیٹر ماہنامہ جھلک علی گڑھ
جوائنٹ ایڈیٹر روزنامہ نو روز، کراچی
جوائنٹ ایڈیٹر بہاولپور ریویو‘ بہاولپور
ایڈیٹر ماہنامہ لاہور افیئرز، لاہور
ایڈیٹر ہفت روزہ استقلال ،لاہور
ایڈیٹر ماہنامہ ویسٹ پاکستان، لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ فلاح لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ اوقاف اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ہم وطن، اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ یارانِ وطن، اسلام آباد
بانی چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آوازِ جرس‘ لاہور
بانی چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ مسلم لیگ نیوز ، لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ نوائے بلدیات لاہور
بانی چیف ایڈیٹر ماہنامہ ہمارا ملتان ، ملتان

ادبی تنظیمیں اور ادارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادبی تنظیم قافلہ کے بانی
تخلیق کاروں، فنکاروں،شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی تنظیم ”قافلہ“ بنائی۔ جس کے ”پڑاﺅ“ لاہور اور ملتان میں سیّد فخر الدین بَلّے کی اقامت گاہ پر بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ ہوئے۔ ان کی خواہش پر ہی ”قافلے“ کے پڑاﺅ بہاولپور میں نامور علمی ادبی شخصیت سیدتابش الوری کی رہائش گاہ پر ہوتے ہیں۔
پنجند اکادمی
سرائیکی وسیب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ،فنکاروں کی حوصلہ افزائی، مختلف شعبوں میں ”جوہرِ قابل“ کی دریافت اور پذیرائی کےلئے آپ نے نئی راہیں تلاش کیں۔پنجند اکادمی بنائی اور اس کے قیام پرجو کتابچہ شائع کیا،اس کی ایک ایک سطر میں فخرالدین بلے کے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ان کے خوابوں میں اب بھی حقیقت کے رنگ بھرے جاسکتے ہیں۔
معین اکادمی
اپنے بزرگوں کے نام پر معین اکادمی کی بنیاد رکھی۔ اس اشاعتی ادارے کے تحت متعدد ادیبوں کی کتابیں شائع کیں۔

دل کی بیماری سے دل لگی

اگست 1980 میں انہیں دل کادورہ پڑا۔ڈاکٹروں نے آرام کے ساتھ سگریٹ نوشی ترک کرنے کامشورہ دیالیکن انہوں نے آرام کیا نہ سگریٹ نوشی ترک کی۔دل کی بیماری کے ساتھ ایسی دل لگی شاید ہی کسی نے کی ہو۔ دل کی اس بیماری کے ساتھ وہ چوبیس برس تک زندہ رہے۔جب دورہ پڑتاتودوچار دن بچوں کی دل جوئی کےلئے مصروفیات ضرور ترک کردیتے اور پھر ان کی دن رات جاری رہنے والی سرگرمیاں زیادہ زور شور کے ساتھ نظرآتیں۔معا لجین کاکہناتھا ان کاصرف ایک چوتھائی دل کام کررہاہے ۔آخری ایام میں اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے آکسیجن کی نالی ناک سے لگی رہتی لیکن یہ بیماری بھی انہیں غیر فعال کرنے میں ناکام رہی۔ایسی قوت ِ ارادی اور خود اعتمادی کم کم ہی دکھائی دیتی ہے۔جنوری2004کے دوسرے ہفتے میں انہیں نشتر اسپتال داخل کرا دیاگیا ۔ شدید علالت میں بھی کلمہء شکر زبان پر رہا۔ ہرحال میں شکر بجا لانا ان کے مزاج کاحصہ تھا۔
وفات: آئی ۔سی ۔یو، نشتر اسپتال ،ملتان
تاریخ ِ وفات:28جنوری2004=اٹھاٸیس جنوری دو ہزار چار ۔۔۔6ذوالحج۔۔ ۔بدھ ،رات 8 بج کر 5 منٹ پرخالق حقیقی سے جاملے۔
بہاولپور میں تدفین : جمعرات .29.جنوری.2004.انتیس جنوری دوہزار چار
آخری ”پڑاﺅ“: قبرستان نور شاہ بخاری ‘ بہاولپور

جیتے جی ہے اس مٹی کا قرض چکانا مشکل
بڑھ جائے گا قبرمیں جاکے اِس مٹی کا قرض

Related posts

Leave a Comment